Massive Corruption in Benazir Income Support Program: بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں وسیع پیمانے پر کرپشن جون 2008 میں، پاکستان نے **بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز کیا، جو ملک کا سب سے بڑا سماجی امدادی منصوبہ ہے۔ یہ ادارہ 2010 میں ایک خودمختار ادارے کے طور پر قائم کیا گیا، جس سے اس کے دائرہ کار میں توسیع ممکن ہوئی۔ اس پروگرام کا نام پاکستان کی سابق وزیرِ اعظم **بینظیر بھٹو** کی یاد میں رکھا گیا۔ دسمبر 2024 تک، BISP تقریباً *96 لاکھ خاندانوں* کو سہارا فراہم کر رہا ہے، جس سے تقریباً *5 کروڑ 80 لاکھ افراد* کو فائدہ پہنچ رہا ہے — جو پاکستان کی آبادی کا تقریباً چوتھائی حصہ ہے۔ پروگرام کے لیے انتخاب کا معیار بنیادی طور پر *معاشی ضرورت* پر مبنی ہے، بغیر کسی *مذہبی، نسلی، جغرافیائی یا سیاسی امتیاز* کے۔ اس امداد کے لیے اہل ہونے کے لیے خاندان کی **ماہانہ آمدنی 50,000 روپے (تقریباً 175 امریکی ڈالر) سے کم ہونی چاہیے۔ جنوری 2023 میں، پاکستان کے آڈیٹر جنرل کے دفتر نے قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو اطلاع دی کہ BISP کے 19 ارب روپے غیر قانونی طور پر 1,43,000 سرکاری افسران میں تقسیم کی...
Educational Institutions and the Concept of Punishment ,تعلیمی ادارے اور سزا کا تصور جب ہم طالبِ علم تھے تو اساتذہ کو سزا دینے کا شاید کلّی اختیار حاصل تھا، اور وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے طلبہ کو سزا دیتے تھے۔ ان سزاؤں میں عام سزائیں کان پکڑوانا (جسے عام طور پر مرغا بنانا کہا جاتا تھا)، ہاتھ اور بازو اوپر کروا کر دیر تک کھڑا رکھنا، چہرے پر تھپڑ مارنا، ہاتھوں پر یا پشت پر سوتی مارنا، اور کبھی کبھی کان پکڑوا کر کسی چھوٹے بچے کو پشت پر بٹھا دینا شامل تھا۔ اس وقت والدین کا بھی یہی خیال تھا کہ بچوں کو اسی سختی سے پڑھایا جا سکتا ہے، اور جو بچہ پڑھنا چاہتا ہے اسے اس عمل سے گزرنا ہی پڑے گا۔ نتیجہ یہ تھا کہ بچے مار کے خوف سے اپنا سبق اور گھر کا کام مکمل کر کے آتے تھے۔ زیادہ تر اساتذہ اسکول ہی میں مختلف تعلیمی سرگرمیاں کرواتے تھے۔ اس زمانے میں امتحانات اور روزمرہ کی مشقیں سلیٹ یا تختی پر لی جاتی تھیں۔ سلیٹ دھات کی بنی ایک تختی ہوتی تھی جس کا رنگ کالا ہوتا تھا، اور بچے اس پر سلیٹی (ایک چھوٹا سفید پتھریلا ٹکڑا) سے لکھتے تھے۔ دوسری طرف تختی لکڑی کی بنی ہوتی تھی جس پر گچنی یا گچی — مٹی کی ایک خاص ق...